یہاں بھی اک ہلچل تھی
کبھی یہاں بھی اک دل دھڑکتا تھا
کبھی یہاں اک پھول کھلنا تھا
کبھی یہاں اک خوشبو آنی تھ
یہ سب میری ذات سے تھا
یہ سب مجھ سے منسلک تھا
یہ سب اوجھل ہوا کیسے؟
ہاتھوں سے ریت پھسلی جیسے
سحرا میں مسافرتنہا جیسے
کبھی یہاں اک خوشبو آنی تھی
کبھی یہاں اک پھول کھلنا تھا
وہ سخت پتھر سے ٹکرا گیا
وہ پھول کھلنے سے پہلے مرجھا گیا
یہ سب اوجھل ہوا کیسے؟
میرے ہاتھ سے قلم گرا کیسے؟
میں کھولتی گئ سب گرہیں کیسے؟
یہ اسی ہلچل کا کمال تھا
یہ اسی دل کا اضطراب تھا
مجھے جینا سکھا گیا
پتھروں سے بچا گیا
وہ اک پھول جو مجھ سے منسلک تھا
وہ اک پھول جو میرے چمن کی پہلی بہار تھا
وہ اک پھول جو کھلنے سے پہلے مرجھا گیا
سخت پتھروں سے ٹکرا گیا
وہ اک پھول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
۔
No comments:
Post a Comment